EN हिंदी
باد شمال چلنے لگی انگ انگ میں | شیح شیری
baad-e-shimal chalne lagi ang ang mein

غزل

باد شمال چلنے لگی انگ انگ میں

مصور سبزواری

;

باد شمال چلنے لگی انگ انگ میں
لپٹا ہے کون مجھ سے یہ پت جھڑ کے رنگ میں

خواہش کے کاروبار سے بچنا محال ہے
اترے گا تو بھی ساتھ مرے اس سرنگ میں

میں آندھیوں میں ہاتھ بھی پکڑوں ترا تو کیا
اک شاخ بے سپر ہوں ہواؤں کی جنگ میں

رانجھاؔ میں عہد نو کا قبیلوں میں بٹ گیا
تو ہیرؔ بن کے پی نہ سکی زہر جھنگ میں

گرما سکیں نہ چاہتیں تیرا کٹھور جسم
ہر اک جل کے بجھ گئی تصویر سنگ میں

آگے مصورؔ آگ عقب میں ہے یہ صدا
پیچھے نہ مڑ کے دیکھنا اس دشت سنگ میں