بزعم خود کہیں خود سے ورا نہ ہو جاؤں
خدا نخواستہ میں بھی خدا نہ ہو جاؤں
بس ایک دھیان کی میں انگلی تھام رکھی ہے
کہ بھیڑ میں کہیں خود سے جدا نہ ہو جاؤں
یہ سوچتا ہوں کسی دل میں گھر کروں میں بھی
اور اس سے پہلے یہاں بے ٹھکانہ ہو جاؤں
یہ جی میں آتا ہے میرے کہ رفتگاں کی طرح
میں آج ملک عدم کو روانہ ہو جاؤں
سب اہل دہر مجھے ڈھونڈتے نہ رہ جائیں
میں اپنی ذات ہی میں لاپتا نہ ہو جاؤں
کوئی تو ہو جو مجھے زندگی ہی میں پائے
کسی کے ہاتھ میں آیا خزانہ ہو جاؤں
جو ہو سکے تو مرے جیتے جی ہی قدر کرو
مبادا میں کوئی گزرا زمانہ ہو جاؤں
بس ایک تجربہ میرے لئے بہت ہے دلا
اک اور عشق میں پھر مبتلا نہ ہو جاؤں
میں اک چراغ سر رہ گزار ہوں ساحرؔ
ہوا کے ساتھ بالآخر ہوا نہ ہو جاؤں

غزل
بزعم خود کہیں خود سے ورا نہ ہو جاؤں
پرویز ساحر