برنگ شعر گرے اور بار بار گرے
ہمارے ذہن پہ کرنوں کے آبشار گرے
غموں کی راہ میں ثابت قدم ہیں دیوانے
بساط عیش پہ کتنے نشاط کار گرے
چمن کھلا تو نئی نکہتوں کے آنچل پر
شگفت گل سے ترے عکس بے شمار گرے
زمین چاند کا ٹکڑا ہے جس کی ظلمت پر
کئی اجالے ہر اک شب ستارہ وار گرے
ہمیں بھی فرصت یک خواب اس فضا میں جہاں
کرن کرن لب و رخسار کی پھوار گرے
ابھر رہا ہے جو مشرق کے ہر خرابے سے
کسے خبر کہ کہاں جا کے یہ غبار گرے
غزل
برنگ شعر گرے اور بار بار گرے
صہبا اختر