بہ قدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے
سفر میں راہ و منزل کا تعین بھی یہیں تک ہے
نہ ہو انکار تو اثبات کا پہلو بھی کیوں نکلے
مرے اصرار میں طاقت فقط تیری نہیں تک ہے
ادھر وہ بات خوشبو کی طرح اڑتی تھی گلیوں میں
ادھر میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے ہم نشیں تک ہے
نہیں کوتاہ دستی کا گلہ اتنا غنیمت ہے
پہنچ ہاتھوں کی اپنے اپنے جیب و آستیں تک ہے
سیاہی دل کی پھوٹے گی تو پھر نس نس سے پھوٹے گی
غلامو یہ نہ سمجھو داغ رسوائی جبیں تک ہے
پھر آگے مرحلے طے ہو رہیں گے ہمت دل سے
جہاں تک روشنی ہے خوف تاریکی وہیں تک ہے
الٰہی بارش ابر کرم ہو فصل دونی ہو
کہ باقرؔ کی تو آمد بس اسی دل کی زمیں تک ہے
غزل
بہ قدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے
سجاد باقر رضوی