بجز تمہارے کسی سے کوئی سوال نہیں
کہ جیسے سارے زمانے سے بول چال نہیں
یہ سوچتا ہوں کہ تو کیوں نظر نہیں آتا
مری نگاہ نہیں یا ترا جمال نہیں
تجاہل اپنی جفاؤں پہ اور محشر میں
خدا کے سامنے کہتے ہو تم خیال نہیں
یہ کہہ کے جلوے سے بے ہوش ہو گئے موسیٰ
نگاہ اس سے ملاؤں مری مجال نہیں
میں ہر بہار گلستاں پہ غور کرتا ہوں
جلا نہ ہو مرا گھر ایسا کوئی سال نہیں
خطا معاف کہ سرکار منہ پہ کہتا ہوں
بغیر آئینہ کہہ لو مری مثال نہیں
میں چاندنی میں بلاتا تو ہوں وہ کہہ دیں گے
قمرؔ تمہیں مری رسوائی کا خیال نہیں
غزل
بجز تمہارے کسی سے کوئی سوال نہیں
قمر جلالوی