بہ ہر عنواں محبت کو بہار زندگی کہئے
قرین مصلحت ہے اس کے ہر غم کو خوشی کہیے
جہاں سازوں کو فرزانہ ہم اہل دل کو دیوانہ
زمانہ تو بہت کہتا رہا اب آپ بھی کہیے
بعنوان دگر پھر ہم سے قائم کر لیا تم نے
وہ اک گہرا تعلق جس کو ترک دوستی کہیے
سمجھ کر سنگ راہ شوق ٹھکراتا ہوں منزل کو
کمال آگہی کہیے اسے یا گمرہی کہیے
شب مہتاب میں اکثر فضاؤں سے برستا ہے
طلسم نغمگی ایسا کہ جس کو خامشی کہیے
میں اکثر سوچتا ہوں تیری بے پایاں نوازش کو
ادائے خاص کہیے کوئی یا بس سادگی کہیے
بھری محفل سے بھی تشنہ ہی لوٹ آئی نظر اپنی
خود آگاہی سمجھ لیجے اسے یا خود سری کہیے
غزل
بہ ہر عنواں محبت کو بہار زندگی کہئے
بشر نواز