بہ ہر طریق اسے مسمار کرتے رہنا ہے
کبھی سخن تو کبھی وار کرتے رہنا ہے
دروں کے واسطے دیوار چاہیے جاناں
سو فرش خواب کو دیوار کرتے رہنا ہے
سحر کے معرکۂ نیک و بد سے کیا مطلب
ہمارا کام تو بیدار کرتے رہنا ہے
وہ ایک درد جو صیقل نہیں ہوا اب تک
اسی کو آئنۂ یار کرتے رہنا ہے
یہی ہے ورثۂ شبیر کا چلن ارشدؔ
کہ ہر یزید سے انکار کرتے رہنا ہے
غزل
بہ ہر طریق اسے مسمار کرتے رہنا ہے
ارشد عبد الحمید