EN हिंदी
اولیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو | شیح شیری
awwalin chand ne kya baat sujhai mujhko

غزل

اولیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو

ناصر کاظمی

;

اولیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو
یاد آئی تری انگشت حنائی مجھ کو

سر ایوان طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اس نے تری یاد دلائی مجھ کو

دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو

انہی آنکھوں نے دکھائے کئی بھرپور جمال
انہیں آنکھوں نے شب ہجر دکھائی مجھ کو

سائے کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم
گردش وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو

دھوپ ادھر ڈھلتی تھی دل ڈوبتا جاتا تھا ادھر
آج تک یاد ہے وہ شام جدائی مجھ کو

شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو