اور نہ در بدر پھرا اور نہ آزما مجھے
بس مرے پردہ دار بس! اب نہیں حوصلہ مجھے
سخت نظر فریب ہے آئنہ خانۂ جمال
اس کی چمک دمک نہ دیکھ، دیکھ بجھا بجھا مجھے
حبس ہجوم خلق سے گھٹ کے الگ ہوا تو میں
قطرہ بہ سطح بحر تھا چاٹ گئی ہوا مجھے
صبر کرو محاسبو وقت تمہیں بتائے گا
دہر کو میں نے کیا دیا دہر سے کیا ملا مجھے
صرف اسی کے سامنے خوار کیا تھا آس نے
یاس نے فرد فرد پر آئنہ کر دیا مجھے
تیرے ہی مصر کا ملال تیرے ہی نجد کا خیال
شہر بہ شہر کو بہ کو گام بہ گام تھا مجھے
کار گہہ بقا مجھے ذات و حیات و کائنات
ذات و حیات و کائنات دائرۂ فنا مجھے
ذات و حیات و کائنات بے سر و پا و بے ثبات
بے سر و پا و بے ثبات شے سے امید کیا مجھے
رات لغات عمر سے میں نے چنا تھا ایک لفظ
لفظ بہت عجیب تھا یاد نہیں رہا مجھے
تھا گزراں گزر گیا وقت وصال اور بس
خاک بھی چھانتا پھرا پھر نہ کبھی ملا مجھے
میں نے ہنسی خوشی اسے جانے دیا تھا ہاں مگر
یہ تو معاہدہ نہ تھا مڑ کے نہ دیکھنا مجھے
شام اس آدمی کی یاد آئی جو ایک عمر بعد
جانیے کس عذاب میں کر گئی مبتلا مجھے
میں نے اسے شکست دی سینہ بہ سینہ لب بہ لب
سینہ بہ سینہ لب بہ لب اس نے ہرا دیا مجھے
جو نہ سنا تھا دہر سے اس کی زباں سے سن لیا
اب مجھے کوئی کچھ کہے فکر نہیں ذرا مجھے
ہیں تری مہربانیاں بھولی ہوئی کہانیاں
بھولی ہوئی کہانیاں یاد نہ اب دلا مجھے
فن کو سمجھ لیا گیا محض عطیۂ فلک
سعی و ریاض کا صلہ خوب دیا گیا مجھے
محرم خاص دیکھنا سو تو نہیں گیا شعورؔ
دیر ہوئی سنے ہوئے کوئی نئی صدا مجھے
غزل
اور نہ در بدر پھرا اور نہ آزما مجھے
انور شعور