اور کیا آخر تجھے اے زندگانی چاہیئے
آرزو کل آگ کی تھی آج پانی چاہیئے
یہ کہاں کی ریت ہے جاگے کوئی سوئے کوئی
رات سب کی ہے تو سب کو نیند آنی چاہیئے
اس کو ہنسنے کے لئے تو اس کو رونے کے لئے
وقت کی جھولی سے سب کو اک کہانی چاہیئے
کیوں ضروری ہے کسی کے پیچھے پیچھے ہم چلیں
جب سفر اپنا ہے تو اپنی روانی چاہیئے
کون پہچانے گا دانشؔ اب تجھے کردار سے
بے مروت وقت کو تازہ نشانی چاہیئے
غزل
اور کیا آخر تجھے اے زندگانی چاہیئے
مدن موہن دانش