اور کچھ تیز چلیں اب کے ہوائیں شاید
گھر بنانے کی ملیں ہم کو سزائیں شاید
بھر گئے زخم مسیحائی کے مرہم کے بغیر
ماں نے کی ہیں مرے جینے کی دعائیں شاید
میں نے کل خواب میں خود اپنا لہو دیکھا ہے
ٹل گئیں سر سے مرے ساری بلائیں شاید
میں نے کل جن کو اندھیروں سے دلائی تھی نجات
اب وہی لوگ مرے دل کو جلائیں شاید
پھر وہی سر ہے وہی سنگ ملامت اس کا
در گذر کر دیں مری اس نے خطائیں شاید
اب وہ کہتا نہیں مجھ سے کہ برہنہ تو ہے
چھن گئیں اس کے بدن کی بھی قبائیں شاید
اس بھروسے پہ کھلا ہے مرا دروازہ رئیسؔ
روٹھنے والے کبھی لوٹ کے آئیں شاید

غزل
اور کچھ تیز چلیں اب کے ہوائیں شاید
رئیس صدیقی