اطوار ترے اہل زمیں سے نہیں ملتے
انداز کسی اور حسیں سے نہیں ملتے
ان کی بھی بہ ہر حال گزر جاتی ہیں راتیں
جو لوگ کسی زہرہ جبیں سے نہیں ملتے
تم مہر سہی ماہ سہی ہم سے ملو تو
کیا اہل مہک اہل زمیں سے نہیں ملتے
اے حضرت دل ان سے بنی ہے نہ بنے گی
کیوں آپ کسی اور حسیں سے نہیں ملتے
مرزاؔ کو بھی پردا نہیں والا منشوں کی
اچھا ہے جو اس خاک نشیں سے نہیں ملتے
غزل
اطوار ترے اہل زمیں سے نہیں ملتے
مرزا ہادی رسوا