اصل میں ہوں میں مجرم میں نے کیوں شکایت کی
خود پہ بس نہیں اس کا عمر ہے شرارت کی
پیار کا وہی انداز عمر کا وہی آغاز
گرچہ ہیں ملاقاتیں اس سے ایک مدت کی
دل نواز خط اس کے ذائقے بہت اس کے
رنگ پھیکا پھیکا ہے شوخ ہے طبیعت کی
اب حریف سب اس کے تلخ روز و شب اس کے
کانپتے ہیں لب اس کے اس نے کیوں محبت کی
آگ سا بدن اس کا آفتاب سی نظریں
کون تاب لائے گا اس قدر تمازت کی
اپنے بند کمرے میں میں پگھلتا جاتا ہوں
رات کو نکل آئی دھوپ کس قیامت کی
یاد جب بھی کرتا ہوں ہونٹ جلنے لگتے ہیں
دوڑتے لہو میں ہیں گرمیاں رفاقت کی
مجلسوں میں یاروں کے مرتبے بہت سے ہیں
ایک سی ہے تنہائی علم اور جہالت کی
میں ہوا کا جھونکا سا اپنے آپ میں گم تھا
یہ خلا سی تنہائی آپ نے عنایت کی
اہل زر نہیں ہم لوگ گہری نیند سوتے ہیں
دن ہزار لمحوں کا رات ایک ساعت کی
پوچھتا نہیں کوئی تجربے کو اب شہزادؔ
یعنی مبتدی ہونا شرط ہے امامت کی
غزل
اصل میں ہوں میں مجرم میں نے کیوں شکایت کی
شہزاد احمد