اسیر دشت طلسمات آب سے نکلے
بہت دنوں میں سفینے سراب سے نکلے
تپش ہے ایسی شبوں میں کہ اڑ گئی نیندیں
سبھی چمکتے ہوئے رنگ خواب سے نکلے
حصار جبر سے ممکن نجات تھی لیکن
جھکا کے سر نہ کسی تنگ باب سے نکلے
کبھی تو درد کا شعلہ زبان پر بھڑکے
دہکتا خون رگوں کے عذاب سے نکلے
بھرے گھروں سے بچھڑنے کا غم نہیں شاہینؔ
یہی بہت ہے کہ شہر خراب سے نکلے
غزل
اسیر دشت طلسمات آب سے نکلے
جاوید شاہین