اشک ہوئے ہیں ابتر ایسے ہم کو بہائے دیتے ہیں
تختی کیسی حیف یہ لڑکے دھو کے مٹائے دیتے ہیں
ایک پھنسی ہی زلفوں میں اک چاہ ذقن ہیں ڈوبی ہے
دیدہ و دل میں پھوٹ پڑی ہے گھر کو ڈبائے دیتے ہیں
خون کریں گے تم پر اپنا یاد رکھو ان باتوں کو
آؤ نہ ملنا خوب نہیں ہے تم کو جتائے دیتے ہیں
خوب جو دیکھا خوباں کو کچھ خوب نہ دیکھا ایسے ہیں
غیر سے مل کر خاک میں ہم کو مفت ملائے دیتے ہیں
لوگ نثارؔ اب ہم سے ناحق ان کا تفحص کرتے ہیں
نام و نشاں ہم یار کا اپنے کوئی بتائے دیتے ہیں
غزل
اشک ہوئے ہیں ابتر ایسے ہم کو بہائے دیتے ہیں
محمد امان نثار