EN हिंदी
اشک چشم بت بے جاں سے نکل سکتا ہے | شیح شیری
ashk chashm-e-but-e-be-jaan se nikal sakta hai

غزل

اشک چشم بت بے جاں سے نکل سکتا ہے

ناظم بریلوی

;

اشک چشم بت بے جاں سے نکل سکتا ہے
آہ پر سوز سے پتھر بھی پگھل سکتا ہے

اپنے انداز تکلم کو بدل دے ورنہ
میرا لہجہ بھی ترے ساتھ بدل سکتا ہے

لوگ کہتے تھے کہ پھلتا نہیں نفرت کا شجر
ہم کو لگتا ہے کہ اس دور میں پھل سکتا ہے

میرے سینے میں محبت کی تپش باقی ہے
میری سانسوں سے ترا حسن پگھل سکتا ہے

چاند کی چاہ میں اڑتے ہوئے پنچھی کی طرح
دل بھی ناداں ہے کسی شے پہ مچل سکتا ہے

جذبۂ عشق سے روشن ہے مرا دل ناظمؔ
یہ دیا تیز ہواؤں میں بھی جل سکتا ہے