اشک چشم بت بے جاں سے نکل سکتا ہے
آہ پر سوز سے پتھر بھی پگھل سکتا ہے
اپنے انداز تکلم کو بدل دے ورنہ
میرا لہجہ بھی ترے ساتھ بدل سکتا ہے
لوگ کہتے تھے کہ پھلتا نہیں نفرت کا شجر
ہم کو لگتا ہے کہ اس دور میں پھل سکتا ہے
میرے سینے میں محبت کی تپش باقی ہے
میری سانسوں سے ترا حسن پگھل سکتا ہے
چاند کی چاہ میں اڑتے ہوئے پنچھی کی طرح
دل بھی ناداں ہے کسی شے پہ مچل سکتا ہے
جذبۂ عشق سے روشن ہے مرا دل ناظمؔ
یہ دیا تیز ہواؤں میں بھی جل سکتا ہے
غزل
اشک چشم بت بے جاں سے نکل سکتا ہے
ناظم بریلوی