اقلیم دل پہ عشق کی فرماں روائیاں
جاں بخش قربتیں کہیں قاتل جدائیاں
سولی چڑھا کوئی کوئی غرقاب ہو گیا
کیا کیا وفا سے ہوتی رہیں بے وفائیاں
لٹتی ہے قید زلف میں کیا کیا بہار حسن
تہہ میں اسیریوں کی ہیں کیا کیا رہائیاں
ذات بشر ہزار گروہوں میں بٹ گئی
گمراہ اور کر گئیں کچھ رہنمائیاں
ناداریوں میں صبر کی نعمت سے تھے غنی
دولت بڑھی تو بڑھ گئیں بے اعتنائیاں
بے پردگی سے اڑ گیا شرم و حیا کا رنگ
چہرے پہ اڑ رہی ہیں حیا کے ہوائیاں
اوصاف دیکھنا ہوں تو اوروں کے دیکھ شادؔ
اوجھل ہیں تیری آنکھ سے تیری برائیاں
غزل
اقلیم دل پہ عشق کی فرماں روائیاں
شاد بلگوی