اپنوں سے مروت کا تقاضا نہیں کرتے
صحراؤں میں سائے کی تمنا نہیں کرتے
مجنوں پہ نہ کر رشک کہ جو اہل وفا ہیں
مر جاتے ہیں معشوق کو رسوا نہیں کرتے
ٹک دیکھ لیا آنکھوں ہی آنکھوں میں ہنسے بھی
پر یوں تو علاج دل شیدا نہیں کرتے
کیا ہو گیا اس شہر کے لوگوں کے دلوں کو
خنجر بھی اتر جائے تو دھڑکا نہیں کرتے
بارش کی طلب ہے تو سمندر کی طرف جا
یہ ابر تو صحراؤں پہ برسا نہیں کرتے
دو دن کی جو باقی ہے تحمل سے بسر کر
جو ہونا ہے ہو جائے گا سوچا نہیں کرتے
پچھتاوے سے بڑھ کر کوئی آزار نہیں ہے
جب دل کو لگاتے ہیں تو رویا نہیں کرتے
مایوسی کی نعمت بڑی مشکل سے ملی ہے
پھر آس بندھاتے ہو تم اچھا نہیں کرتے
جو کچھ کہے شہرتؔ کی غزل مان لو اس کو
دل کو کبھی شاعر کے دکھایا نہیں کرتے
غزل
اپنوں سے مروت کا تقاضا نہیں کرتے
شہرت بخاری