EN हिंदी
اپنی تقدیر سے بغاوت کی | شیح شیری
apni taqdir se baghawat ki

غزل

اپنی تقدیر سے بغاوت کی

کرار نوری

;

اپنی تقدیر سے بغاوت کی
آج ہم نے بھی اک عبادت کی

کون ہے جس کے سر کی کھائیں قسم
کس نے ہم سے یہاں محبت کی

اور کیا ہے یہ گھر کا سناٹا
ایک آواز ہے محبت کی

ہم کو مٹنا تھا مٹ گئے نوریؔ
چاہ میں ایک بے مروت کی