اپنی ہستی نظر آئی تھی ابھی
سانس سے شمع بجھائی تھی ابھی
کون ہو سکتا ہے آنے والا
ایک آواز سی آئی تھی ابھی
ایک صورت تھی کہ دل ہی دل میں
ایک صورت سے مل آئی تھی ابھی
ساتھ اپنے وہ خدا تھا کوئی
ساتھ اپنے جو خدائی تھی ابھی
سب کی آنکھوں میں نظر آنے لگی
دل میں صورت جو چھپائی تھی ابھی
بات کہتے ہی ذرا کھو سے گئے
بات مشکل سے بنائی تھی ابھی
پھر وفادار نظر آنے لگا
بے وفا جس سے لڑائی تھی ابھی

غزل
اپنی ہستی نظر آئی تھی ابھی
کرار نوری