اپنے وعدوں کو فراموش نہ کر دینا تھا
ساز الطاف کو خاموش نہ کر دینا تھا
اپنی نظروں سے اگر مجھ کو کیا تھا اوجھل
اپنے دل سے تو فراموش نہ کر دینا تھا
نہیں آتا تھا اگر ہوش میں لانا تم کو
کسی کمبخت کو بے ہوش نہ کر دینا تھا
ہر نفس موت کے قدموں کی صدا سننے کو
زندگی کو ہمہ تن گوش نہ کر دینا تھا
آنسوؤں میں فقط اب مجھ کو نظر آتے ہو
اس طرح تو مجھے غم کوش نہ کر دینا تھا
نہ اٹھانا تھا در میکدۂ ناز سے اب
ورنہ پہلے مجھے مے نوش نہ کر دینا تھا
حشر بھی یا تو بہشت آفریں کرنا تھا مرا
یا مری قبر کو گل پوش نہ کر دینا تھا
اس طرح زحمت فردا کو بڑھانے کے لئے
مجھ کو خمیازہ کش دوش نہ کر دینا تھا
آنکھ میں دیکھ کر آنسو مجھے رشک آتا ہے
اتنا ویران تو آغوش نہ کر دینا تھا
دفتر ناز پہ کچھ بار نہ تھا اس کا نیاز
اپنے بسملؔ کو سبک دوش نہ کر دینا تھا
غزل
اپنے وعدوں کو فراموش نہ کر دینا تھا
بسمل سعیدی