EN हिंदी
اپنے تصورات سے آگے نکل گیا | شیح شیری
apne tasawwuraat se aage nikal gaya

غزل

اپنے تصورات سے آگے نکل گیا

اسامہ امیر

;

اپنے تصورات سے آگے نکل گیا
کل شب میں کائنات سے آگے نکل گیا

سورج کو دیکھنے کے لئے میں دم سحر
بے اختیار رات سے آگے نکل گیا

وہ پتھروں کو کرنے لگا آئینہ صفت
میں حد ممکنات سے آگے نکل گیا

منظر بہت کھلے مری آنکھوں کے سامنے
لیکن میں واقعات سے آگے نکل گیا

میں ہاں اور اک نہیں کے ابھی درمیان ہوں
میرا وجود ذات سے آگے نکل گیا