EN हिंदी
اپنے پندار سے گھٹ کر نہیں قائم رہتا | شیح شیری
apne pindar se ghaT kar nahin qaem rahta

غزل

اپنے پندار سے گھٹ کر نہیں قائم رہتا

نرجس افروز زیدی

;

اپنے پندار سے گھٹ کر نہیں قائم رہتا
فرد کردار سے ہٹ کر نہیں قائم رہتا

عکس بٹ جاتا ہے آئینوں میں لیکن اے دل
آئنہ عکس میں بٹ کر نہیں قائم رہتا

کوئی بھی نقش ہو کتنا ہی مکمل لیکن
وقت کی گرد میں اٹ کر نہیں قائم رہتا

آسمانوں میں اڑانوں کا مزہ ہوگا مگر
کوئی بھی خاک سے کٹ کر نہیں قائم رہتا

روز اک راہ نئی شوق سفر مانگتا ہے
دائروں میں ہی سمٹ کر نہیں قائم رہتا

قطعۂ جاں کو جلاتا ہوا اس دھوپ کا رنگ
چھاؤں سے تیری لپٹ کر نہیں قائم رہتا

یاد میں ان کی کئی بار بکھر جاتا ہے
دل بھی کیا ہے کہ سمٹ کر نہیں قائم رہتا

دل وہ بچہ کہ اسی پل میں ہمکنا چاہے
یہ وہ لمحہ کہ پلٹ کر نہیں قائم رہتا