اپنے کو تلاش کر رہا ہوں
اپنی ہی طلب سے ڈر رہا ہوں
تم لوگ ہو آندھیوں کی زد میں
میں قحط ہوا سے مر رہا ہوں
خود اپنے ہی قلب خونچکاں میں
خنجر کی طرح اتر رہا ہوں
اے شہر خیال کے مسافر
کیا میں ترا ہم سفر رہا ہوں
دیوار پہ دائرے ہیں کیسے
یہ کون ہے کس سے ڈر رہا ہوں
میں شبنم چشم تر سے اے صبح
کل رات بھی تر بہ تر رہا ہوں
اک شخص سے تلخ کام ہو کر
ہر شخص کو پیار کر رہا ہوں
اے دجلۂ خوں ذرا ٹھہرنا
اس راہ سے میں گزر رہا ہوں
فریاد کہ زیر سایۂ گل
میں زہر خزاں سے مر رہا ہوں
غزل
اپنے کو تلاش کر رہا ہوں
رئیس امروہوی