اپنے ہی خون سے اس طرح عداوت مت کر
زندہ رہنا ہے تو سانسوں سے بغاوت مت کر
سیکھ لے پہلے اجالوں کی حفاظت کرنا
شمع بجھ جائے تو آندھی سے شکایت مت کر
سر کی بازار سیاست میں نہیں ہے قیمت
سر پہ جب تاج نہیں ہے تو حکومت مت کر
خواب ہو جام ہو تارہ ہو کہ محبوب کا دل
ٹوٹنے والی کسی شے سے محبت مت کر
دیکھ پھر دست ضرورت میں نہ بک جائے ضمیر
زر کے بدلے میں اصولوں کی تجارت مت کر
پرسش حال سے ہو جائیں گے پھر زخم ہرے
اس سے بہتر ہے یہی میری عیادت مت کر
سر جھکانے کو ہی سجدہ نہیں کہتے داناؔ
جس میں دل بھی نہ جھکے ایسی عبادت مت کر
غزل
اپنے ہی خون سے اس طرح عداوت مت کر
عباس دانا