اپنے ہمراہ جلا رکھا ہے
طاق دل پر جو دیا رکھا ہے
جنبش لب نہ سہی تیرے خلاف
ہاتھ کو ہم نے اٹھا رکھا ہے
تو مجھے چھوڑ کے جا سکتا نہیں
چھوڑ اس بات میں کیا رکھا ہے
وہ ملا دے گا ہمیں بھی جس نے
آب اور گل کو ملا رکھا ہے
مجھ کو معلوم ہے میری خاطر
کہیں اک جال بنا رکھا ہے
جانتا ہوں مرے قصہ گو نے
اصل قصے کو چھپا رکھا ہے
آسمانوں نے گواہی کے لیے
اک ستارے کو بچا رکھا ہے
کام کچھ اتنے ہیں کرنے کو جمالؔ
نام کو کل پہ اٹھا رکھا ہے
غزل
اپنے ہمراہ جلا رکھا ہے
جمال احسانی