اپنے احساس سے باہر نہیں ہونے دیتا
راز ظاہر بھی یہ مجھ پر نہیں ہونے دیتا
خوف رسوائی سے کر دیتا ہے حیراں ایسا
میری آنکھوں کو سمندر نہیں ہونے دیتا
موم کر دیتا ہے جب لوٹ کے آ جاتا ہے
مجھ کو فرقت میں وہ پتھر نہیں ہونے دیتا
دیکھتا ہوں تو کبھی چاند کبھی پھول ہے وہ
اپنی صورت مجھے ازبر نہیں ہونے دیتا
جی میں ہے اڑ کے چلا جاؤں جہاں رہتا ہے
وہ مرا گھر بھی مرا گھر نہیں ہونے دیتا
جب بھی ملتا ہے تو بس ٹوٹ کے ملتا ہے مجھے
اپنے غم کا مجھے خوگر نہیں ہونے دیتا
روٹھ بھی جاتے ہیں جعفرؔ تو منا لینے میں
مجھ کو اپنے سے وہ بہتر نہیں ہونے دیتا

غزل
اپنے احساس سے باہر نہیں ہونے دیتا
جعفر شیرازی