اپنے اشعار کو رسوا سر بازار کروں
کیسے ممکن ہے کہ میں مدحت دربار کروں
دل میں مقتول کی تصویر لیے پھرتا ہوں
اور قاتل سے عقیدت کا بھی اظہار کروں
یہی منشور محبت ہے کہ وہ پیکر ظلم
جس کو نفرت سے نوازے میں اسے پیار کروں
اب مرے شہر کی پہچان ہے اک وعدہ شکن
شہریت بدلوں کہ تاریخ کا انکار کروں
رات بھر جاگ کے تعمیر کروں قصر امید
صبح تکمیل سے پہلے اسے مسمار کروں
غزل
اپنے اشعار کو رسوا سر بازار کروں
غلام محمد قاصر