EN हिंदी
اپنے اندر سے جو باہر نکلے | شیح شیری
apne andar se jo bahar nikle

غزل

اپنے اندر سے جو باہر نکلے

محسن احسان

;

اپنے اندر سے جو باہر نکلے
خود نمائی کا سمندر نکلے

اب سزائیں ہی مقدر ٹھہریں
تازیانوں کے ثناگر نکلے

ایسے بھی لوگ ہیں اس شہر میں جو
دھوپ میں برف پہن کر نکلے

فاختاؤں کا تمسخر توبہ
چیونٹیوں کے بھی عجب پر نکلے

ہاتھ جب قبضۂ شمشیر پہ ہو
کیوں نہ مقتل میں دلاور نکلے

کھینچ دو دار پہ دل داروں کو
شہریاروں کا ذرا ڈر نکلے

جس بھی دیوار میں در کرتا ہوں
وہی دیوار پس در نکلے

کشتیاں چھوڑ کے دریاؤں میں
ریگزاروں سے شناور نکلے

آندھیوں میں بھی کھڑے ہیں اب تک
ہم درختوں سے قد آور نکلے

بھیک اس شہر میں ہم کیا مانگیں
جس کے حاتم بھی گداگر نکلے

پاؤں میں باندھ کے گھنگھرو محسنؔ!
چند قبروں کے مجاور نکلے