اپنا پتہ مجھے بتا بہر خدا تو کون ہے
تجھ پہ ہیں سارے مبتلا بہر خدا تو کون ہے
نام خدا سنا کیا تیرے سوا نہیں ملا
ساری صفت سے ہے بھرا بہر خدا تو کون ہے
تیرا حسد تو نام تھا ہو گیا بندہ کس طرح
تیری ہی ذات ہے بقا بہر خدا تو کون ہے
تیرے سے ہست کل ہوئی تھی تو عدم میں بے نشاں
ہادی مظل ہے برملا بہر خدا تو کون ہے
مالک دو جہاں ہے تو چاہے جسے عطا کرے
کر دے گدا کو بادشا بہر خدا تو کون ہے
تیرے کرم سے اے شہا میں نے خدا نما ہوا
تھا تو فنا بقا ملا بہر خدا تو کون ہے
مرکزؔ جملہ کائنات مظہر ذات کبریا
تیرے سوا نہیں ہوا بہر خدا تو کون ہے

غزل
اپنا پتہ مجھے بتا بہر خدا تو کون ہے
یاسین علی خاں مرکز