EN हिंदी
انوکھا کچھ کہاں ایسا ہوا ہے | شیح شیری
anokha kuchh kahan aisa hua hai

غزل

انوکھا کچھ کہاں ایسا ہوا ہے

جعفر ساہنی

;

انوکھا کچھ کہاں ایسا ہوا ہے
تماشا سب مرا دیکھا ہوا ہے

خوشی کو ہم نشیں اپنا بنا کر
نشان غم بہت گہرا ہوا ہے

ہنسی کیوں بے تحاشہ آئی اس کو
زمانہ کس لیے سنکا ہوا ہے

نئی شاداب قربت کی فضا میں
بہت مخمور سا لہجہ ہوا ہے

سراپا دیکھ کر دل کش کسی کا
ہر اک منظر وہاں ٹھہرا ہوا ہے

کبھی منسوب راحت سے تھا دریا
بڑا بے درد وہ صحرا ہوا ہے

تپش میں عشق کی بے چین سا تھا
کلیجہ رو کے اب ٹھنڈا ہوا ہے

سجا کر بزم جعفرؔ آرزو کی
اکیلا دیر سے بیٹھا ہوا ہے