انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے
نازک ہے مزاج حسن بہت سجدے سے بھی برہم ہوتا ہے
مل جل کے بہ رنگ شیر و شکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر
دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیب کا سنگم ہوتا ہے
کچھ ما و شما میں فرق نہیں کچھ شاہ و گدا میں بھید نہیں
ہم بادہ کشوں کی محفل میں ہر جام بکف جم ہوتا ہے
دیوانوں کے جبہ و دامن کا اڑتا ہے فضا میں جو ٹکڑا
مستقبل ملت کے حق میں اقبال کا پرچم ہوتا ہے
منصور جو ہوتا اہل نظر تو دعویٔ باطل کیوں کرتا
اس کی تو زباں کھلتی ہی نہیں جو راز کا محرم ہوتا ہے
تا چند سہیلؔ افسردۂ غم کیا یاد نہیں تاریخ حرم
ایماں کے جہاں پڑتے ہیں قدم پیدا وہیں زمزم ہوتا ہے
غزل
انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے
اقبال سہیل