اندھی راہوں کی الجھن میں بیچاری گھبرائی رات
پہلے لہو میں پھر آنسو میں پھر کرنوں میں نہائی رات
اک پردے کو اٹھ جانا تھا اک چہرے کو آنا تھا
کتنی حسیں تھی کتنی دل کش شرمائی شرمائی رات
ہر شاخ گل میں تھی یہ نرمی غنچے تک گر جاتے تھے
آج ہر اک ٹہنی پتھر ہے کیسی آندھی لائی رات
ایک کرشمہ اک دھوکا تھا ایک تحیر سازی تھی
لیکن اک عالم نے یہ سمجھا کہ دن سے ٹکرائی رات
ایک نیا در ایک نیا گھر ایک نیا ہنگامہ ہے
ایک نئے رہزن کے گھر اک نیا مسافر لائی رات
غزل
اندھی راہوں کی الجھن میں بیچاری گھبرائی رات
پیغام آفاقی