EN हिंदी
اندھیروں سے الجھنے کی کوئی تدبیر کرنا ہے | شیح شیری
andheron se ulajhne ki koi tadbir karna hai

غزل

اندھیروں سے الجھنے کی کوئی تدبیر کرنا ہے

ذوالفقار نقوی

;

اندھیروں سے الجھنے کی کوئی تدبیر کرنا ہے
کوئی روزن کسی دیوار میں تسخیر کرنا ہے

ذرا دیکھوں تو دم کتنا ہے اس باد مخالف میں
سر دشت بلا اک گھر نیا تعمیر کرنا ہے

نکل آیا ہے جو بیداد راہوں پر دل بے خود
کوئی ناوک فگن آئے اسے نخچیر کرنا ہے

سر دشت جنوں جو بے خودی کے پھول کھلتے ہیں
انہیں روشن دماغوں کے لئے اکسیر کرنا ہے

مکان لا مکانی کا سفر میرا نہیں رکتا
تمہاری یاد کو اب پاؤں کی زنجیر کرنا ہے