انداز وہ نہیں ہے اب وہ ادا نہیں ہے
پہلا سا بانکپن تو تجھ میں رہا نہیں ہے
کیوں سانس گھٹ رہی ہے کیوں مضطرب ہے دل بھی
شاید کھلی فضا میں تازہ ہوا نہیں ہے
تنقید کر رہا ہے کچھ اس ادا سے مجھ پر
جیسے کہ اس جہاں میں میرا خدا نہیں ہے
ہے عشق نام میرا دل ہے مقام میرا
اس کے سوا جہاں میں میرا پتا نہیں ہے

غزل
انداز وہ نہیں ہے اب وہ ادا نہیں ہے
مینو بخشی