EN हिंदी
انداز وہ نہیں ہے اب وہ ادا نہیں ہے | شیح شیری
andaz wo nahin hai ab wo ada nahin hai

غزل

انداز وہ نہیں ہے اب وہ ادا نہیں ہے

مینو بخشی

;

انداز وہ نہیں ہے اب وہ ادا نہیں ہے
پہلا سا بانکپن تو تجھ میں رہا نہیں ہے

کیوں سانس گھٹ رہی ہے کیوں مضطرب ہے دل بھی
شاید کھلی فضا میں تازہ ہوا نہیں ہے

تنقید کر رہا ہے کچھ اس ادا سے مجھ پر
جیسے کہ اس جہاں میں میرا خدا نہیں ہے

ہے عشق نام میرا دل ہے مقام میرا
اس کے سوا جہاں میں میرا پتا نہیں ہے