عکس آئینہ خانہ سے الگ رکھا ہے
وحشت ذات کو صحرا سے الگ رکھا ہے
خود کو میں خود سے بھی ملنے نہیں دیتا ہرگز
اپنی دنیا کو بھی دنیا سے الگ رکھا ہے
میں کہاں ساعت امروز میں رہنے والا
میں نے ہر روز کو فردا سے الگ رکھا ہے
دو محاذوں پہ ابھی معرکہ آرائی ہے
خیمۂ صبر کو دجلہ سے الگ رکھا ہے
خشک مشکیزۂ حلقوم کی نگرانی میں
پیاس کے خطے کو دریا سے الگ رکھا ہے
وہ تو کہتا ہے تری ذات میں ضم ہوں لیکن
اس نے بھی خود کو بس اک لا سے الگ رکھا ہے
کتنا آسان ہے یہ جادۂ دشوار بھی اب
اپنا ہر نقش کف پا سے الگ رکھا ہے
میں یگانہؔ کا طرفدار نہیں ہوں شاہدؔ
اس لئے میر کو مرزا سے الگ رکھا ہے
غزل
عکس آئینہ خانہ سے الگ رکھا ہے
شاہد کمال