اکیلے کیا پس دیوار و در گئے ہم تم
سگان خفتہ کو ہشیار کر گئے ہم تم
قدم قدم پہ عجب بے حیا نگاہوں کا
حصار سا نظر آیا جدھر گئے ہم تم
گلوں نے خوب پذیرائی کی کہ بھولے سے
کسی چمن میں نہ بار دگر گئے ہم تم
امید وصل کے دن کٹ گئے بھٹکنے میں
نہ ہوٹلوں پہ یقیں تھا نہ گھر گئے ہم تم
ہوائے دہر نے سہما رکھا تھا کس درجہ
کواڑ بھی کہیں کھڑکا تو ڈر گئے ہم تم
فلک کی دھن تھی مگر فرش پر ہمارے پاؤں
جمے نہ تھے کہ خلا میں بکھر گئے ہم تم
زہے یہ ہمت پرواز بھی مگر اب تو
نشیب میں کئی زینے اتر گئے ہم تم
غزل
اکیلے کیا پس دیوار و در گئے ہم تم
انور شعور