عجیب رنگ ترے حسن کا لگاؤ میں تھا
گلاب جیسے کڑی دھوپ کے الاؤ میں تھا
ہے جس کی یاد مری فرد جرم کی سرخی
اسی کا عکس مرے ایک ایک گھاؤ میں تھا
یہاں وہاں سے کنارے مجھے بلاتے رہے
مگر میں وقت کا دریا تھا اور بہاؤ میں تھا
عروس گل کو صبا جیسے گدگدا کے چلی
کچھ ایسا پیار کا عالم ترے سبھاؤ میں تھا
میں پر سکوں ہوں مگر میرا دل ہی جانتا ہے
جو انتشار محبت کے رکھ رکھاؤ میں تھا
غزل کے روپ میں تہذیب گا رہی تھی ندیمؔ
مرا کمال مرے فن کے اس رچاؤ میں تھا
غزل
عجیب رنگ ترے حسن کا لگاؤ میں تھا
احمد ندیم قاسمی