عجیب نشہ ہے ہشیار رہنا چاہتا ہوں
میں اس کے خواب میں بیدار رہنا چاہتا ہوں
یہ موج تازہ مری تشنگی کا وہم سہی
میں اس سراب میں سرشار رہنا چاہتا ہوں
سیاہ چشم مری وحشتوں پہ طنز نہ کر
میں قاتلوں سے خبردار رہنا چاہتا ہوں
یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم
ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا چاہتا ہوں
ادھر بھی آئے گی شاید وہ شاہ بانوئے شہر
یہ سوچ کر سر بازار رہنا چاہتا ہوں
ہوا گلاب کو چھو کر گزرتی رہتی ہے
سو میں بھی اتنا گنہ گار رہنا چاہتا ہوں
غزل
عجیب نشہ ہے ہشیار رہنا چاہتا ہوں
عرفانؔ صدیقی