عجیب منظر ہے بارشوں کا مکان پانی میں بہہ رہا ہے
فلک زمیں کی حدود میں ہے نشان پانی میں بہہ رہا ہے
تمام فصلیں اجڑ چکی ہیں نہ ہل بچا ہے نہ بیل باقی
کسان گروی رکھا ہوا ہے لگان پانی میں بہہ رہا ہے
عذاب اترا تو پاؤں سب کے زمیں کی سطحوں سے آ لگے ہیں
ہوا کے گھر میں نہیں ہے کوئی مچان پانی میں بہہ رہا ہے
کوئی کسی کو نہیں بچاتا سب اپنی خاطر ہی تیرتے ہیں
یہ دن قیامت کا دن ہو جیسے جہان پانی میں بہہ رہا ہے
اداس آنکھوں کے بادلوں نے دلوں کے گرد و غبار دھوئے
یقین پتھر بنا کھڑا ہے گمان پانی میں بہہ رہا ہے
غزل
عجیب منظر ہے بارشوں کا مکان پانی میں بہہ رہا ہے
شکیل اعظمی