عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے
مرے حریف لہو کے دیئے جلائیں گے
میں تجربوں کی اذیت کسے کسے سمجھاؤں
کہ تیرے بعد بھی مجھ پر عذاب آئیں گے
بس ایک سجدۂ تعظیم کے تقابل میں
کہاں کہاں وہ جبین طلب جھکائیں گے
عطش عطش کی صدائیں اٹھی سمندر سے
تو دشت پیاس کے چشمے کہاں لگائیں گے
چھپا کے رکھ تو لیا ہے شرار بو لہبی
دھواں اٹھا تو نظر تک ملا نہ پائیں گے
دراز کرتے رہو دست حق شناس اپنا
بہت ہوا تو وہ نیزے پہ سر اٹھائیں گے
نواح لفظ و معانی میں گونج ہے کس کی
کوئی بتائے یہ امجدؔ کہ ہم بتائیں گے

غزل
عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے
غفران امجد