عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا
حصول رزق ہوا بھی تو زیر دام ہوا
تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا
ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا
کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا
ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں
عجیب قرض وراثت میں میرے نام ہوا
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
ہم اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں پچھتاوا
خیال لوٹ کے جانے کا گام گام ہوا
غزل
عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا
آنس معین