EN हिंदी
عجب خجالت جاں ہے نظر تک آئی ہوئی | شیح شیری
ajab KHajalat-e-jaan hai nazar tak aai hui

غزل

عجب خجالت جاں ہے نظر تک آئی ہوئی

سعود عثمانی

;

عجب خجالت جاں ہے نظر تک آئی ہوئی
کہ جیسے زخم کی تقریب رو نمائی ہوئی

نظر تو اپنے مناظر کے رمز جانتی ہے
کہ آنکھ کہہ نہیں سکتی سنی سنائی ہوئی

برون خاک فقط چند ٹھیکرے ہیں مگر
یہاں سے شہر ملیں گے اگر کھدائی ہوئی

خبر نہیں ہے کہ تو بھی وہاں ملے نہ ملے
اگر کبھی مرے دل تک مری رسائی ہوئی

میں آندھیوں کے مقابل کھڑا ہوا ہوں سعودؔ
پڑی ہے فصل محبت کٹی کٹائی ہوئی