عیش سے کیوں خوش ہوئے کیوں غم سے گھبرایا کیے
زندگی کیا جانے کیا تھی اور کیا سمجھا کیے
نالۂ بے تاب لب تک آتے آتے رہ گیا
جانے کیا شرمیلی نظروں سے وہ فرمایا کیے
عشق کی معصومیوں کا یہ بھی اک انداز تھا
ہم نگاہ لطف جاناں سے بھی شرمایا کیے
ناخدا بے خود فضا خاموش ساکت موج آب
اور ہم ساحل سے تھوڑی دور پر ڈوبا کیے
وہ ہوائیں وہ گھٹائیں وہ فضا وہ اس کی یاد
ہم بھی مضراب الم سے ساز دل چھیڑا کیے
مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی
اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے
کاٹ دی یوں ہم نے جذبیؔ راہ منزل کاٹ دی
گر پڑے ہر گام پر ہر گام پر سنبھلا کیے
غزل
عیش سے کیوں خوش ہوئے کیوں غم سے گھبرایا کیے
معین احسن جذبی