EN हिंदी
ایسے میں روز روز کوئی ڈھونڈتا مجھے | شیح شیری
aise mein roz roz koi DhunDta mujhe

غزل

ایسے میں روز روز کوئی ڈھونڈتا مجھے

بمل کرشن اشک

;

ایسے میں روز روز کوئی ڈھونڈتا مجھے
آواز دے رہی تھی ادھر کی ہوا مجھے

ایسا ہوا کہ گھر سے نہ نکلا تمام دن
جیسے کہ خود سے آج کوئی کام تھا مجھے

پردے کے آس پاس کوئی باغ ہی نہ ہو
کھڑکی کھلی تو پھول کا دھوکا ہوا مجھے

یہ پیڑ جس پہ پھول نہ پتی نہ ٹہنیاں
دس بیس سال بعد جو خود سا لگا مجھے

میں آج بھی وہی ہوں وفا تھی جسے عزیز
فرصت ملے تو آ کے کبھی دیکھ جا مجھے

آنکھوں میں دل اتر پڑا آئینہ دیکھ کر
آیا تھا اک خیال بہت دور کا مجھے

یہ فکر آ پڑی ہے کہ بدلے گئے نہ ہوں
سائے سے کہہ رہا ہوں ذرا دیکھنا مجھے

کہتے ہیں یار دوست اگر بے وفا کہیں
اے اشکؔ آنسوؤں نے بھی کیا دے دیا مجھے