EN हिंदी
ایسے گم سم وہ سوچتے کیا تھے | شیح شیری
aise gum-sum wo sochte kya the

غزل

ایسے گم سم وہ سوچتے کیا تھے

بلبیر راٹھی

;

ایسے گم سم وہ سوچتے کیا تھے
جانے یاروں کے فیصلے کیا تھے

ہم تو یوں ہی رکے رہے ورنہ
اپنے آگے وہ فاصلے کیا تھے

بوجھ دل کا اتارنا تھا ذرا
ورنہ تم سے ہمیں گلے کیا تھے

صحرا صحرا لئے پھرے ہم کو
وہ جنوں کے بھی سلسلے کیا تھے

دور تک تھی نہ گر کوئی منزل
پھر وہ اجلے نشان سے کیا تھے

ہم ہی تھے جو یقین کر بیٹھے
ورنہ ان کے وہ معجزے کیا تھے

سر پھرے تھے کہ مسخرے یارو
جو ہمیں یوں لئے پھرے کیا تھے