EN हिंदी
ایسے دیکھا ہے کہ دیکھا ہی نہ ہو | شیح شیری
aise dekha hai ki dekha hi na ho

غزل

ایسے دیکھا ہے کہ دیکھا ہی نہ ہو

انور شعور

;

ایسے دیکھا ہے کہ دیکھا ہی نہ ہو
جیسے مجھ کو تری پروا ہی نہ ہو

بعض گھر شہر میں ایسے دیکھے
جیسے ان میں کوئی رہتا ہی نہ ہو

مجھ سے کترا کے بھلا کیوں جاتا
شاید اس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو

یہ سمجھتا ہے ہر آنے والا
میں نہ آؤں تو تماشا ہی نہ ہو

یوں بھٹکنے پہ ہوں قانع جیسے
راستوں میں کوئی دریا ہی نہ ہو

رات ہر چاپ پہ آتا تھا خیال
اٹھ کے دیکھوں کوئی آیا ہی نہ ہو

کیسے چھوڑوں در و دیوار اپنے
کیا خبر لوٹ کے آنا ہی نہ ہو

ہیں سبھی غیر تو اپنا مسکن
شہر کیوں ہو کوئی صحرا ہی نہ ہو

یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے شعورؔ
کیا کہوں جب کوئی سنتا ہی نہ ہو