ایسے دیکھا ہے کہ دیکھا ہی نہ ہو
جیسے مجھ کو تری پروا ہی نہ ہو
بعض گھر شہر میں ایسے دیکھے
جیسے ان میں کوئی رہتا ہی نہ ہو
مجھ سے کترا کے بھلا کیوں جاتا
شاید اس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو
یہ سمجھتا ہے ہر آنے والا
میں نہ آؤں تو تماشا ہی نہ ہو
یوں بھٹکنے پہ ہوں قانع جیسے
راستوں میں کوئی دریا ہی نہ ہو
رات ہر چاپ پہ آتا تھا خیال
اٹھ کے دیکھوں کوئی آیا ہی نہ ہو
کیسے چھوڑوں در و دیوار اپنے
کیا خبر لوٹ کے آنا ہی نہ ہو
ہیں سبھی غیر تو اپنا مسکن
شہر کیوں ہو کوئی صحرا ہی نہ ہو
یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے شعورؔ
کیا کہوں جب کوئی سنتا ہی نہ ہو
غزل
ایسے دیکھا ہے کہ دیکھا ہی نہ ہو
انور شعور