EN हिंदी
ایسے بیمار کی دوا کیا ہے | شیح شیری
aise bimar ki dawa kya hai

غزل

ایسے بیمار کی دوا کیا ہے

رفعت زمانی بیگم عصمت

;

ایسے بیمار کی دوا کیا ہے
جو بتاتا نہیں ہوا کیا ہے

کون سنتا ہے اس زمانہ میں
کس سے کہئے کہ التجا کیا ہے

لب بیمار تھرتھراتے ہیں
جھک کے سنئے ذرا دعا کیا ہے

مجھ کو جو دیکھتا ہے روتا ہے
کوئی کیا جانے ماجرا کیا ہے

حضرت خضر بھی بتا نہ سکے
زندگانی کا مدعا کیا ہے

درد پر دوسروں کے ہنس دینا
یہ بھی اچھا ہے تو برا کیا ہے

فخر خاتون ہند ہے عصمتؔ
ہم سے پوچھے کوئی وفا کیا ہے