EN हिंदी
ایسا لگتا ہے جیسے پوری ہے | شیح شیری
aisa lagta hai jaise puri hai

غزل

ایسا لگتا ہے جیسے پوری ہے

ذیشان ساحل

;

ایسا لگتا ہے جیسے پوری ہے
یہ کہانی مگر ادھوری ہے

ہجر تو خیر اس کا لازم تھا
وصل بھی اب بہت ضروری ہے

میری آنکھوں کے جرم میں شامل
ان نگاہوں کی بے قصوری ہے

میرے الفاظ ہو رہے ہیں خرچ
قوم کی مفت میں مشہوری ہے

یوں مرا تاج و تخت چھین لیا
جیسے وہ شیر شاہ سوری ہے

ان دنوں اس کے سامنے دل کی
جی حضوری ہی جی حضوری ہے

کس قدر شوخ کر دیا مجھ کو
عشق مٹھو میاں کی چوری ہے