EN हिंदी
اے شہر خرد کی تازہ ہوا وحشت کا کوئی انعام چلے | شیح شیری
ai shahr-e-KHirad ki taza hawa wahshat ka koi inam chale

غزل

اے شہر خرد کی تازہ ہوا وحشت کا کوئی انعام چلے

عزیز حامد مدنی

;

اے شہر خرد کی تازہ ہوا وحشت کا کوئی انعام چلے
کچھ حرف ملامت اور چلیں کچھ ورد زباں دشنام چلے

اک گرمیٔ جست فراست ہے اک وحشت پائے محبت ہے
جس پاؤں کی طاقت جی میں ہو وہ ساتھ مرے دو گام چلے

ایسے غم طوفاں میں اکثر اک ضد کو اک ضد کاٹ گئی
شاید کہ نہنگ آثار ہوا کچھ اب کے حریف دام چلے

جو بات سکوت لب تک ہے اس سے نہ الجھ اے جذبۂ دل
کچھ عرض ہنر کی لاگ رہے کچھ میرے جنوں کا کام چلے

اے وادئ غم یہ موج ہوا اک ساز راہ سپاراں ہے
رکتی ہوئی رو خوابوں کی کوئی یا صبح چلے یا شام چلے

تجھ کو تو ہواؤں کی زد میں کچھ رات گئے تک جلنا ہے
اک ہم کہ ترے جلتے جلتے بستی سے چراغ شام چلے

جو نقش کتاب شاطر ہے اس چال سے آخر کیا چلیے
کھیلے تو ذرا دشوار چلے ہارے بھی تو کچھ دن نام چلے

کیا نام بتائیں ہم اس کا ناموں کی بہت رسوائی ہے
کچھ اب کے بہار تازہ نفس اک دور وفا بے نام چلے

یہ آپ کہاں مدنیؔ صاحب کچھ خیر تو ہے مے خانہ ہے
کیا کوئی کتاب مے دیکھی دو ایک تو دور جام چلے